ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / عالمی خبریں / ایتھنز میں بالآخر باقاعدہ مسجد کا قیام

ایتھنز میں بالآخر باقاعدہ مسجد کا قیام

Sat, 25 Feb 2017 20:41:53  SO Admin   S.O. News Service

ایتھنز25فروری(ایس او نیوز/آئی این ایس انڈیا)یونانی دارالحکومت ایتھنز میں پہلی باقاعدہ مسجد کی تعمیر پر سترہ برس کی تاخیر کے بعدبالآخر کام شروع ہو گیا ہے تاہم شہر میں رہنے والے مسلمان مسجد کی تعمیر کے پایہ تکمیل تک پہنچنے کے بارے میں کچھ زیادہ پر امید نہیں۔ایتھنز میں ایک مترجم کی حیثیت سے رہنے والے نصراللہ عابد کا مسجد کی تعمیر کے بارے میں کہنا ہے کہ میں کافی عرصے سے لوگوں کو اس بارے میں بات چیت کرتے ہوئے سن رہا ہوں، میں اسی وقت مانوں گا جب یہ میرے سامنے ہو گا۔“ عابد نے یہ بات نیوس کوس موس نامی ایک محلے میں قائم ایک غیر سرکاری مسجد میں کی، جہاں وہ نماز ادا کرنے آئے تھے۔یورپی یونین کا رکن ملک یونان گزشتہ چند برسوں سے شدید مالی بحران کے باعث عالمی سطح پر خبروں میں ہے تاہم ایتھنز میں ایک پاکستانی نژاد تارک وطن کے حالیہ قتل نے اب عالمی توجہ وہاں نسل پرستانہ رجحانات پرمرکوزکر دی ہے۔ ایتھنز میں تین لاکھ مسلمان مقیم ہیں، جو شہر میں قائم درجنوں غیر سرکاری مساجد میں نماز اداکرتے ہیں۔ یہ مساجد مختلف گیراجوں وغیرہ میں قائم ہیں۔ یونانی دارالحکومت ایتھنز میں غیر سرکاری مساجد کا نیٹ ورک پاکستان، افغانستان اور مصر سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کی آمد کے بعد وجود میں آیا۔ یہ امر اہم ہے کہ ایتھنز میں تو مسلمانوں کی تدفین کے لیے بھی کوئی باقاعدہ نظام ومقام نہیں۔ تدفین کے لیے مسلمانوں کو شمالی یونان کے شہر تھریس جانا پڑتا ہے، جو ترک نژاد ایک چھوٹی سی مسلمان اقلیت کاگڑھ ہے۔مسلم ایسوسی ایشن آف یونان کے صدر نیم الغادور اس صورتحال کو ’شرمناک‘ قرار دیتے ہیں۔ ان کے بقول مسلمانوں کودوسرے درجے کے شہریوں کی طرح زندگیاں گزارنی پڑتی ہیں۔ الغادور ایتھنز میں مسجد کی تعمیر کے حوالے سے بھی کچھ زیادہ پر امید نہیں۔ مسجد کی تعمیر کا منصوبہ در اصل سن2000 میں شروع ہوا تھا۔ تاحال اس بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے کہ آیا مسجد اپریل میں طے شدہ تاریخ پرکھل سکے گی۔ایتھنز کے ڈپٹی میئر اور مہاجرین سے متعلق امورکے نگران لیفٹیرس پاپاگیاناکس کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کے رکن ملکوں کے دارالحکومتوں میں ایتھنز اب وہ واحد شہر ہے، جہاں اب بھی مسلمانوں کی باقاعدہ عبادت گاہ موجود نہیں۔ ان کے بقول اگر مقصد انتہا پسندی کے فروغ سے بچنا ہے، تو اس کے لیے توزیادہ موزوں تویہی ہو گا کہ عبادت کی کوئی سرکاری جگہ ہو، نہ کہ غیر سرکاری مساجد کا نیٹ ورک۔
 


Share: